مختصر مگر شاندار

 مختصر مگر شاندار 


                        ایثار و قربانی 


ڈاکٹر نے صفدر سے کہا کہ مبارک ہو آپ کی آنکھوں کا انتظام ہو گیا ہے۔ کل آکر ایڈمٹ ہو جائیں ہم آپریشن کر دیں گے۔ وہ اور تمام گھر والے اس غمزدہ ماحول میں بھی خوش ہو گئے اور انھوں نے آنے کی حامی بھی بھر لی، گرچہ کہ ماں کے انتقال کو

تین ہی دن ہوئے تھے۔ مگر وہ ماں کے پاس رہتا ہی کب تھا۔ وہ تو اپنا ایک الگ سنسار بسائے بیٹھا تھا۔ اکیلی ماں کو کرائے کے روم میں چھوڑ کر کچھ ضروریات پوری کر دیتا وہ بیچاری عزت دار شریف عورت پڑوس کے افراد

کے ساریوں پر فال ٹاک کر اپنا گذارا کرتی تھی۔ لوگ کہتے بھی: آپا اب اس عمر میں کیوں اتنا تکلیف دیتی ہو آنکھوں کو ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک سرد آہ بھر کر کہتیں:۔ ہاں اللہ نے اس عمر میں بھی میری آنکھوں کو جو ان شاید اسی لئے رکھا کہ میرا گذارا ہو جائے۔ پھر دن گذرتے رہے صفدر گاہے بگا ہے ہی خیر خبر لینے آتا۔

کچھ دن پہلے ہی اس کی ماں کا طویل علالت کے بعد اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد صفدر نے ماں کی تدفین کی۔ اور آج تیسر اہی دن تھا کہ اسے کسی اسپتال سے فون آیا جہاں چند ماہ پہلے اس نے آنکھ کی بینائی ضائع ہو جانے کی وجہ سے رجوع کیا تھا۔ مگر ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ کی آنکھ بالکل ضائع ہو چکی ہے آپ کی آنکھ بدلنی پڑے گی“ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اس نے آنکھ بک کروادی کہ جب بھی ملے آپ فون کر لیں میں پہنچ جاؤں گا۔ پھر اسے فون تب آیا جب اس کی ماں کا انتقال ہو چکا۔ اسے آج ماں کی کمی بہت محسوس ہوئی ۔۔۔۔ آج اگر وہ ہوتی تو اسپتال سے واپس آنے تک اس کے لیے دعائیں کرتی رہتی۔ پھر وہ دن بھی آگیا اور اس کا آپریشن بھی کامیاب ہو گیا۔ اس نے آپریشن کے بعد ایک بڑی رقم ڈاکٹر کے حوالے کی اور شکریہ ادا کر کے بینائی کا تحفہ لئے گھر واپس ہوا۔۔۔۔۔


اور پھر زندگی معمول پر آگئی۔ روز مرہ کے کام میں وہ مشغول ہو گیا۔ ایک دن اس کے آفس میں ایک شخص آیا، ملاقات کے بعد ایک لفافہ تھما کر چلا گیا۔ اپنے کیبن میں واپس آکر اس نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک پرچہ ملا جس پر کچھ تحریر تھا اور بہت سارے کرارے نوٹ پڑے تھے۔ تحریر پڑھ کر وہ جیسے گنگ ہو گیا اس کی آنکھوں نے ضبط کا ساتھ چھوڑ دیا ، دل نے چلا چلا کر

رونا چاہا۔۔۔۔ وہ غمزدہ دل لئے گھر واپس چلا گیا۔ رات بھر نیند نے آنے سے انکار کر دیا۔ وہ وقت یاد کیا اس نے جب ماں کی آنکھوں میں جلن ہو رہی تھی، انفیکشن ہو گیا تب دو دو یا تین روز تک ماں کو لے جاتا رہا اور اس کے بعد اس نے انھیں پڑوسن کے ساتھ جانے کی تاکید کر دی اور گھر چلا گیا کیونکہ وہ مصروف رہتا تھا اور ہفتہ میں ایک بار ہی ماں سے ملنے جاتا تھا۔ پھر جب سے ماں علیل تھی یہ بھی ایک آنکھ کی بینائی سے محروم تھا، ماں کو اس کا علم تھا مگر اس نے سوچا اس قدر میری بے اعتنائی کے باوجود ماں میرے لئے اتنی بڑی قربانی دے گی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس ایک جملے نے اسے ماں کا مقروض کر دیا تھا۔ اس کے احسانوں تلے دو دب چکا تھا، جسے وہ آج تک سمجھ نہیں پایا تھا۔ اس جملے کی گونج اسے مسلسل ستارہی تھی، وہ تڑپ تڑپ کر رونے لگا اور اس تحریر کو چومنے لگا جو اب آہستہ آہستہ اشکوں کی آڑ میں دھندلی نظر آرہی تھی۔ پرچے پر لکھا تھا:


میرے لخت جگر صفدر کو میرے مرنے کے بعد میری آنکھ دے دی جائے اور وہ آنکھ کے لئے جو ر قم ادا کرے وہ بھی اسے جوں کی توں لوٹا دی جائے ڈاکٹر صاحب کی ممنون رہوں گی۔" ( صفدر کی ماں)


اور آہستہ آہستہ وہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔۔۔۔۔


جاتے جاتے بھی ماں اپنی اولاد پر قربان ہو گئی۔۔۔۔۔

Post a Comment