بہت عرصہ پہلے کے بات ھے خالہ بانو ہمارے محلے میں آیا کرتی تھی اس کا شوہر بیمار رہتا تھا بچے ابھی چھوٹے تھے وہ آتی۔ کچھ گھروں سے بچا کھچا کھانا اپنے گھر لے جاتی مجھے آج بھی یاد ہے اکثر ان کے بدن پر گلابی رنگ کا پرانا جوڑا پہنا ہوتا اس پر بھی پیوند ہوتے ساری عورتوں کو پتا ہوتا وہ کھانا لینے آتی ہیں کبھی کوئی خوشی سے دیتا کبھی کوئی جھڑک دیتا آہستہ آہستہ لوگ اس سے بیزار رہنے لگے اور کبھی کبھی اسے بے عزت کر کے گھر سے نکال دیتے پھر بھی وہ مسکراتی عجیب عورت تھی کبھی اپنی بے عزتی کا برا نہیں منایا جو لوگ اس کی بیعزتی کرتے وہ پھر بھی ان کے گھر چلی جاتی کیونکہ اسے اپنے بچوں کے لیے کھانا چاہیے ہوتا کوئی بے عزتی کرتا پھر بھی مسکراتی وہ اپنی اوقات سے سمجھوتا کر چکی تھی جو دنیا والوں کی نظروں میں تھی اس کی ایک دن وہ محلے میں آئی تو بتایا کہ وہ بیمار ہے کسی نے توجہ نہ دی کسی نے ڈرامے باز بھی کہ دیا وہی دن تھا جب وہ بالکل بھی نہیں مسکرائی اس کے بعد وہ نہیں آئی اس کا انتقال ہو گیا رسم دنیا کی خاطر کچھ لوگ تعزیت کو گئے تو دیکھا اس کے گھر کے نام پر بس ایک جھوپڑی تھی اس کا بیمار شوہر ٹوٹی چار پائی پر بیٹھا آنسو بہا رہا کمرا کیا تھا کچی دیواروں کے اوپر ایک کمزور چھت تھی جس سے بارش کا پانی بھی اندر آجائے وہی فرش بھی ٹوٹا ہوا تھا بغیر چپل کے انسان چل نہ سکے اور واشروم کی تھا ٹوٹی پھوٹی دیواریں تھیں چھت کے بغیر آج وہ شرما گئے جو انسانیت کا درس دیتے کبھی کسی نے نے زحمت ہی نہ کی اس کا حال جاننے کی تھی رشتے دار بھی بہت غریب تھے بہت دور تھے اس کے بچے پرانے میلے کپڑوں میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہے تھے یہ دیکھ کر پتھر دلوں کے بھی دل بھر آئے
Post a Comment
Post a Comment